Faizan E Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ | فیضانِ امام حسین | Inspiring Legacy of Imam Hussain
Imam Hussain ibn Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ, one of the grandsons of Prophet Muhammad ﷺ, is a towering personality in Islamic history.
His life and martyrdom are a symbol of the struggle for justice, truth, and righteousness. The narrative of Faizan E Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ stand against tyranny at the Battle of Karbala has inspired generations of Muslims and non-Muslims alike. This blog explores his life as a grandson of the Prophet ﷺ, his unwavering commitment to Islam and its values, and the enduring legacy he left behind.
سیِّد الشہدا امام حُسین ر َضِیَ اللہُ عَنْہ کا تعارف
سیِّدالاَسخیاء، امامِ عالی مقام حضرت سیِّدنا امام حَسَن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی ولادت 15 رَمضان المبارَک سن 3 ہجری کو مدینۂ منورَّہ میں ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا مبارَک نام :حَسَن، کُنیت : ابو محمد اور اَلقاب: تَقی ، سیِّد، سِبْطِ رسولُ اللہ ،سِبْطِ اکبر او ر رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ( رسولِ خُداﷺ کا پھول) ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو’’آخر الخُلفاء بالنص‘‘بھی کہتے ہیں۔ حضور سیِّدِ عالم ﷺ نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام حَسن رکھااور ساتویں روز آپ کا عقیقہ فرمایااور بال جُدا کیے گئے اور حکم دیا گیا کہ بالوں کے وزن کی چاندی صَدَقہ کی جائے۔ (1) امام شمس الدین ذہبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ’’ سِیَر اَعلام النُبلاء ‘‘ میں امامِ عالی مقام سیِّدنا امام حَسَن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا تذکر ہ کرتے ہوئے ان کے اَلقابات یوں ذکر فرماتے ہیں:’’ اَلْإِمَامُ السَّيِّدُ، رَيْحَانَةُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسِبْطُهُ، وَسَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَبُوْ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، الْهَاشِمِيُّ، الْمَدَنِيُّ، الشَّهِيْدُ ۔‘‘(2) حضرتِ سیِّدنا امامِ حَسَن مُجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو زہر دیا گیا۔اس زہر کا آ پ رَضِیَ اللہُ عَنْہ پر ایسا اثر ہوا کہ آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر خارِج ہونے لگیں، 40 روز تک آپ کو سخت تکلیف رہی۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا وصال 5 ربیع الاوّل 50ہجری کو مدینہ شریف میں ہوا۔ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی وفات 40ھ میں ہوئی۔ شہادت کے وقت حضرت سیِّدنا امام حَسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی عمرمبارک 47 سال تھی۔ حضرت سیِّدالشہدا امام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے مدینۂ منورَّہ کے گورنر حضرت سیِّدنا سعید بن العاص رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھایا اور انہوں نے سیِّدالاسخیاء امام حَسَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(3) حَسَنِ مُجتبیٰ سیِّدُ الاَسْخِیَا راکِبِ دوشِ عزّت پہ لاکھوں سلام اَوجِ مِہرِ ہُدیٰ مَوجِ بَحرِ نَدیٰ روح رُوحِ سَخاوت پہ لاکھوں سلام(4)
Imam Hussain ibn Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں میں سے ایک، اسلامی تاریخ کی ایک بلند پایہ شخصیت ہیں۔
ان کی زندگی اور شہادت انصاف، حق اور صداقت کی جدوجہد کی علامت ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی روایت کربلا کی جنگ میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نسلوں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ بلاگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کے طور پر ان کی زندگی، اسلام اور اس کی اقدار کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی، اور اس کے پیچھے چھوڑ جانے والی پائیدار میراث کی کھوج کرتا ہے۔
سیِّد الشہدا امام حُسین ر َضِیَ اللہُ عَنْہ کا تعارف
سیِّدُ الشُّہَدا ، امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام حضرت سیِّدنا امام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی وِلادت 5 شعبان المعظَّم سن 4 ہجری کو مدینۂ منورّہ میں ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نامِ مبارک: حُسین، کُنیت: ابو عبداللہ اور اَلقاب: سِبْطِ رسولُ اللہ ، اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ( رسولِ خُداﷺ کا پھول) ہیں۔( 5) امام شمس الدین ذہبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے’’سِیَر اَعلام النُبلاء‘‘ میں امامِ عالی مقام سیِّدنا امام حُسین کا تذکر ہ کرتے ہوئےان کے اَلقابات یوں ذکر فرماتے ہیں: ’’ اَلْإِمَامُ الشَّرِيْفُ الْكَامِلُ، سِبْطُ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – و َرَيْحَانتُهُ مِنَ الدُّنْيَا، وَمَحْبُوْبُهُ ۔ ‘‘(6) سیِّدُ الشُّہَدا ، امامِ عالی مقام حضرت سیِّدنا امام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے 10 محرَّم الحرام سن 61 ہجری ، بروز جمعہ اسلام کی سربلندی اور تحفظ کی خاطر یزید پلید کے خلاف جہاد کرتے ہوئےکربلا کے میدان میں 56 سال 5 ماہ 5 دن کی عمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔(7) واقعۂ کربلا اور سیِّدُالشُّہَدا ،امام عالی مقام امام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شہادت سے متعلّق مسلمانوں کےسوادِ اعظم اہلسنت و جماعت کا عقیدہ شارحِ بخاری ،فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق اَمجدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ:’’کربلا کی جنگ میں سیدنا امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پر تھے، اور یزید باطل پر ، اس پر اہلِ سنّت کا اتفاق ہے کہ یزید فاسق و فاجر تھا۔‘‘(8) یزید پلید کے بارے میں اہل سنّت وجماعت کے مَوقِف کو بیان کرتے ہوئے مجدِّدِ اعظم، امامِ اہل سنت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’یزید پلید علیہ مایستحقہ من العزیز المجید قطعاً یقیناً باجماع ِاہلسنّت فاسق وفاجر وجَرِی علی الکبائر تھا ،اس قدر پر ائمہ اہلِ سنّت کا اِطباق واتفاق ہے۔‘‘(9) مزید فرماتے ہیں: ’’اس(یزید پلید) کے فِسق وفُجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم(حضرت امام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت کے خلاف ہے اور ضلالت (گمراہی)و بدمذہبی صاف ہے، بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصوَّر نہیں جس میں محبتِ سیّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شمّہ ہو۔‘‘(10) شہد خوارِ لُعابِ زبانِ نبی چاشنی گِیرِ عِصْمَت پہ لاکھوں سلام اس شہیدِ بَلا ،شاہِ گُلگُوں قَبا بِیکسِ دَشتِ غُربَت پہ لاکھوں سلام (11)
ایمان حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش
امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت 4 شعبان 4 ہجری (626ء) کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ کے دوسرے فرزند اور فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا وہ اہل بیت کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کے طور پر، ان کا تعلق ایک ایسے نسب سے تھا جس کی تمام مسلمان عزت کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ صرف چھ ماہ کے حمل کے بعد جنم دیا گیا۔ سیدنا یحییٰ کے علاوہ خدا ان سے راضی ہو۔ اور امام حسین رضی اللہ عنہصرف چھ ماہ کے حمل کے بعد پیدا ہونے والا کوئی بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (شواہد النبوۃ ص 228)
امام حسین رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امام حسین رضی اللہ عنہ کے گھر میں پرورش پائی ۔ گہری روحانی اور اخلاقی تعلیم حاصل کی۔ اس نے بچپن ہی سے جرات، انصاف اور شفقت کی اقدار کو مجسم کرتے ہوئے سیدھے سیدھے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والدین سے سیکھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے نواسوں سے بے پناہ محبت کو بیان کرنے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ ایک درج ذیل ہے:
“پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بٹھایا۔اس کی گود میں اسے گلے لگایا، گلے لگایا، اسے اپنی مبارک چادر میں لپیٹ لیا، اسے جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دیا اور اسے “اس دنیا میں میرا پھول” کہا۔ (مسند احمد، ج10، ص184، حدیث 26602، الترمذی، ج5، ص426-433، حدیث 3793-3812)
حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قیادت
امام حسین رضی اللہ عنہ وہ نہ صرف سیاسی لحاظ سے رہنما تھے بلکہ روحانی رہنما بھی تھے۔ انہوں نے اخلاقی سالمیت کو برقرار رکھنے اور اسلامی اصولوں پر قائم رہنے کی اہمیت پر زور دیا، حتیٰ کہ مشکلات میں بھی۔ امام حسین کی رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ تعلیمات انصاف، وقار، اور جبر کے خلاف مزاحمت کی اہمیت پر مرکوز تھیں۔
ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی غربت کی شکایت کی، نواسہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔. امام نے اس سے فرمایا:
’’کچھ دیر بیٹھو۔ میرا الاؤنس مجھے لایا جائے گا۔ جیسے ہی اسے یہاں لایا جائے گا، ہم آپ کو الوداع کریں گے۔’ تھوڑی دیر کے بعد پانچ بوریاں جن میں ایک ایک ہزار دینار تھے جو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ پہنچ گیا تھا. ان کو لانے والے نے کہا: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عَنْهُ نے معذرت کی ہے کہ یہ صرف تھوڑی سی رقم ہے۔ براہ کرم اسے قبول کریں۔’
امام حسین رضی اللہ عنہ تمام رقم اس شخص کو دے دی جس نے اپنی غربت کی شکایت کی اور اسے انتظار کرنے پر معذرت کی۔’ (کشف المحجوب ص 77)
حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی عظمت
امام حسین رضی اللہ عنہ ایک بار جنازہ میں شرکت سے واپس آ رہے تھے کہ تھکاوٹ محسوس کر کے آرام کرنے کے لیے ایک جگہ بیٹھ گئے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدم مبارک کی خاک چھاننی شروع کر دی۔ اپنی شال کے ساتھ، جس سے امام حسین رضی اللہ عنہ خوش ہوتے ہیں ۔ اسے کرنے سے منع کیا.
اس پر سیدنا ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْه کہا: اللہ کی قسم! اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ میں آپ کی شان و شوکت کے بارے میں کیا جانتا ہوں تو وہ آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں گے۔ (ابن عساکر، ج 14، ص 179، خلاصہ | تاریخ الاسلام للذہبی، ج 2، ص 627)
امام حسین رضی اللہ عنہ ظلم کے خلاف موقف
امام حسین رضی اللہ عنہ اموی حکمران یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا جس نے بدعنوان اور غیر منصفانہ طرز عمل کو مجسم کیا امام حسین رضی اللہ عنہ مخالفت کی اس کا انکار ظلم و جبر کے خلاف حق و انصاف کا موقف تھا!
اہل بیت کا کربلا کا سفر
کربلا کے میدانوں نے حق و باطل کے درمیان ایک یادگار کشمکش کا مشاہدہ کیا جو تاریخ کے ریکارڈ اور لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو گیا ہے۔ اس موقع پر حق و انصاف کی نمائندگی کرنے والی روح، امام حسین رضی اللہ عنہ۔کو آج بھی سچائی کی روشنی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس کا مخالف یزید بھی باطل کا مترادف ہو گیا ہے۔
کربلا کی جنگ
کربلا کی تاریخ کا مختصر احوال یہ ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے جن میں یزید کے خلاف کھڑے ہونے کی صورت میں حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوا، اس امید پر کہ وہ یزید کی حکومت کے خلاف مزاحمت کو متحرک کرے۔ کربلا کا سفر محض جسمانی نہیں بلکہ ایک گہرا روحانی عمل تھا۔ یہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور اسلام کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے شعوری انتخاب کی علامت ہے، یہاں تک کہ اپنی جان کی قیمت پر۔
10 محرم 61 ہجری (680 عیسوی) کو امام حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے پیروکاروں کے چھوٹے گروہ نے کربلا کے میدانوں میں یزید کی وسیع فوج کا سامنا کیا۔ بہت زیادہ تعداد میں اور پانی سے محروم ہونے کے باوجود امام حسین رضی اللہ عنہ عَنْهُ اور اس کے ساتھی بہادری سے لڑے۔
شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی معرکہ کربلا میں شہید ہوئے لیکن ان کی قربانی اسلامی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ ان کی موت کی وحشیانہ نوعیت اور اس کے نتیجے میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ سلوک نے مسلم دنیا کو چونکا دیا اور انصاف کی تحریک کو بھڑکا دیا۔
Sayyiduna Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ شہادت کے وقت آپ کی عمر 56 سال 5 ماہ اور 5 دن تھی۔ روضہ امام حسین کربلا میں ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کا موقف اور اس کے پیروکار
عاشورہ کی رات حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے پیارے بھائی سیدنا عباس علمدار رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ سے فرمایا۔: ‘یہ جنگ کسی بھی طرح سے کل تک موخر کر دی جائے، تاکہ ہم یہ رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزار سکیں۔’ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ نماز، تلاوت قرآن، دعا اور کثرت سے استغفار کرنا مجھے بہت عزیز ہے۔ (الکامل فی تاریخ، ج 3، ص 415)
کربلا کا قتل عام یزید کے دنیاوی عزائم اور اہل کوفان کی غداری کا نتیجہ تھا جنہوں نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو بہت سے خطوط اور دعوتیں بھیجی تھیں ۔. اس واقعے نے یزید کی فوجوں کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے بہت سے افراد اور ان کے حامیوں کا بے رحمانہ قتل عام دیکھا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں کھڑا ہونا ان کے غیر متزلزل ایمان اور عدل و انصاف کے عزم کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اس کے ہتھیار ڈالنے سے انکار، یہاں تک کہ یقینی موت کے باوجود، سچائی اور راستبازی کے لیے آخری قربانی کی مثال ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی نصیحت
ذیل میں امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی چند خوبصورت نصیحتیں یا اقتباسات ہیں جسے پڑھ کر آپ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی گہری بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔
– دنیا اگرچہ اچھی اور نفیس سمجھی جاتی ہے لیکن اللہ کا انعام اس سے کہیں بڑھ کر اور نفیس ہے۔
– جب دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں تو پہلے دوسرے سے صلح کرنے والا پہلے جنت میں جائے گا۔
– رزق کی تقسیم تقدیر نے کی ہے، لیکن انسان کے لیے بہتر ہے کہ وہ مال کی لالچ میں نہ رہے۔
– جب کوئی شخص کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے مدد مانگتا ہے تو اس کی مدد کرنے والے اور ذلیل و رسوا ہونے والے سب برابر ہیں۔
قُرُوْرَۃُ الْعَیْنَیْن فِیْ تَذْکِرَۃِ الْحَسْنَیْن رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا
1 ’’امام حَسَن کی 30 حکایات‘‘ ،ص3، ملخصّاً ’’سوانح کربلا‘‘، ص91-92، ملخصّاً 2 ‘’ سیر اعلام النبلاء ‘‘،٤٧- الحسن بن علی ،3/245-246 3 ’’امام حَسَن کی 30 حکایات‘‘،ص24-25، ملخصّاً 4 ’’حدائق بخشش‘‘، ص309 5 ’’ امامِ حُسین کی کرامات‘‘ ،ص2، ملخصّاً 6 ‘’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ ،٤٨- الحسین الشھید ،3/280 7 ’’سوانح کربلا‘‘، ص170، ملخصّاً 8 ’’فتاوی شارح بخاری‘‘،2/66 9 ’’فتاوی رضویہ‘‘،14/591 10 ’’ فتاوی رضویہ‘‘،14/592 11 ’’حدائق بخشش‘‘، ص310
بنام ’’اَربعینِ حَسنین‘‘
آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے دو پھول
قَالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :’’ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا ‘‘۔(1) ’’ إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا ‘‘۔(2) سلطانِ کائنات،فخرِِ موجودات ﷺ نے اِرشاد فرمایا:’’ حَسن اورحُسین دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘
شرحِ حدیث
’’اس فرمان نبوی کا مطلب یہ ہے کہ حضرت حسن و حسین دنیا میں جنّت کے پھول ہیں جو مجھے عطا ہوئے ان کے جسم سے جنّت کی خوشبو آتی ہے اس لیے حضورﷺ انہیں سُونگھا کرتے تھے اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرماتے تھے : اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا اَبَا رَیْحَانَیْنِ ۔اے دو پھولوں کے والد۔‘‘(3) ’’جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیا را ہوتا ہےایسے ہی دُنیا اور دُنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضراتِ حسنین کریمین پیارے ہیں۔اَولاد پھول ہی کہلاتی ہے سارے نواسی نواسوں میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو یہ دونوں فرزند بہت پیارے تھے۔‘‘(4) اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں کیجے رضؔا کو حشر میں خَنداں مِثالِ گل(5)
دو محبوب پھول
عَنْ سَعْدٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَلْعَبَانِ عَلَى بَطْنِهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! أَتُحِبُّهُمَا، فَقَالَ :’’ وَمَا لِيْ لَا أُحِبُّهُمَا وَهُمَا رَيْحَانَتَايَ ۔‘‘ (6) حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں : میں اس حال میں رسولِ کریم،رؤف و رحیم ﷺ کی بارگاہِ ناز میں حاضر ہوا کہ حضرت حَسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا آپ ﷺ کے شکمِ اَقدس (پیٹ مبارَک) پر کھیل رہے ہیں۔ میں نے عرض کی :یارسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ان دونوں (شہزادوں)سے محبت فرماتے ہیں؟ تو محبوبِ کبریا ﷺ نے اِرشاد فرمایا:’’میں ان دونوں سے محبت کیوں نہ کروں!یہ دونوں تو میرے پھول ہیں۔‘‘
مشابہتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوشاہکار
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : ’’ اَلْحَسَنُ أَشْبَهَ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ ۔‘‘(7) حضرت سیِّدُنا مولا علی مشکل کُشا رَضِیَ اللہُ عَنْہ نےاِرشاد فرمایا : ’’حَسن سینے سے سر تک رسولِ عظیم ﷺ سے بہت مشابہ تھے اور حُسین اِس سے نیچے کے حصّے میں نبیِ کریم ﷺ کے بہت مشابہ تھے۔‘‘
ایک سینہ تک مُشابہ اِک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سِبطَین ان کے جاموں میں ہے نِیما نور کا
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عِیاں
خطِّ تَواَم میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نور کا(8)
دو ہمشکلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : كَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ أَشْبَههُمْ بِرَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔ (9) حضرت سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں : حضرت سیِّدنا حَسن اور جناب سیِّدنا حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا رسولِ بے مثال و باکمال ﷺ کے ساتھ (شکل و شباہت میں) سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
شرحِ حدیث
’’دونوں شہزادے بہ نسبت دوسرے اَفراد کے اپنے جدِّ کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے سب سے زیادہ مشابہ تھے اور ان دونوں میں حضرت امام حسن مجتبیٰ بہ نسبت امام حسین کے زیادہ مشابہ تھے، جب ان کا وصال ہوگیا تو حضرت امام حسین مطلقاً سب سے زیادہ مشابہ تھے۔‘‘(10)
مَعدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثَقَلَین
اس نُور کی جلوہ گَہ تھی ذاتِ حَسنَین
تَمثِیل نے اس سایہ کے دو حصّے کیے
آدھے سے حَسن بنے ہیں آدھے سے حُسین(11)
1 ’’ صحیح بخاری ‘‘، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ،باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، ص921، حدیث:3753 2 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،مناقب ابی محمد الحسن بن علی الخ،4/518،حدیث:4124 3 مرآۃ المناجیح ، 8/462 4 مرآۃ المناجیح ، 8/475 5 حدائق بخشش، ص77 6 مجمع الزوائد ،کتاب المناقب، ٢١-باب : فیما اشترک فیہ الحسن والحسین ،الخ، 18/512، حدیث: 15070 ‘’ البحر الزخار المعروف بمسند البزار ‘‘ ،ومما روی ابو سھیل ۔۔۔ الخ ، 3/286 ۔ 287، حدیث :1078 7 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب۔۔۔،4/521،حدیث:4133 8 حدائق بخشش، ص249 9 الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،حرف الحاء،١٧٢٩- الحسین بن علی ۔۔۔الخ،2/68 10 نزھۃ القاری 4/480 11 حدائق بخشش، ص444
جنّتی جوانوں کے دو سردار
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’ اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ۔‘‘(1) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ سیِّدالکُل،امام الرُّسُل ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ’’حَسن اور حُسین جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
شرحِ حدیث
’’ یعنی جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور ہوں جنّتی حضرت حسنین کریمین ان کے سردار ہیں، ورنہ جنّت میں تو سب ہی جوا(ن ہوں گے۔‘‘(2)
اگلے پچھلےجنّتی نوجوانوں کےدوسردار
وَلَاتَسُبُّوا الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَإِنَّهُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِیْنَ ۔‘‘ (3) سرورِ ذیشان، رحمتِ عالَمیان ﷺ نےاِرشاد فرمایا: ’’حَسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو گالی نہ دو(یعنی بُرا بھلا نہ کہو) ! کیونکہ وہ دونوں اگلے پچھلے تمام جنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
جنّتیوں کے سات سردار
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُوْلُ : ’’ نَحْنُ وَلَدَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَنَا، وَحَمْزَةُ، وَعَلِيٌّ، وَجَعْفَرٌ، وَالْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ، وَالْمَهْدِيُّ ۔‘‘(4) حضرت سیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں کہ میں نے سیِّدالکُل ،امام الرُّسل ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سُنا: “ہم حضرت عبدالمطلب رَضِیَ اللہُ عَنْھ کی اَولاد جنّتوں کے سردار ہیں ،یعنی میں ، حمزہ ، علی ، جعفر ،حَسن، حُسین اور مَہدی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَسَلَّم ۔‘‘
نامِ حَسن و حُسین کی خصوصیت
قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ : كُنْتُ رَجُلًا أُحِبُّ الْحَرْبَ، فَلَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ هَمَمْتُ أَنْ أُسَمِّيَهُ حَرْبًا، فَسَمَّاهُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ، فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ هَمَمْتُ أَنْ أُسَمِّيَهُ حَرْبًا، فَسَمَّاهُ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُسَيْنَ، وَ قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’ إِنِّي سَمَّيْتُ ابْنَيَّ هَذَيْنِ بِاسْمِ ابْنَيْ هَارُوْنَ شَبَرَ وَ شُبَيْرَ ۔‘‘(5) حضرت سیِّدُنا علی مُشکل کُشا رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اِرشاد فرمایا: میں حَرب(جنگ) کو پسند کرنے والا شخص تھا۔ جب حَسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیدا ہوئے تو میں نے اِرادہ کیا ہے ان کا نام “حَرْب” رکھوں ،لیکن رسولِ ذیشان ﷺنے ان کا نام ’’ حَسَن‘‘” رکھا۔ پھر جب حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام “حَرْب” رکھنے کا اِرادہ کیا، مگر شاہِ اِنس و جان ﷺ نے ان کا نام ’’حُسین‘‘ رکھ دیا اور ارشاد فرمایا: میں نے اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام (حسن اور حُسین) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے دونوں بیٹوں شَبَر اور شُبَیْر کے ناموں پر رکھے ہیں۔
دونایاب نام
رُوِيَ عَنِ ابْنِ الأَعْرَابِيْ، عَنِ الْمُفَضّلِ، قَالَ: إِنَّ اللهَ حَجَبَ اسْمَ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ حَتّٰى سَمّٰى بِهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَيْهِ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ ۔ (6) مفضّل سے روایت ہے :’’ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حَسن اور حُسین کے ناموں کو محجوب (پوشیدہ) رکھا ، یہاں تک کہ رسولِ اعظمﷺنے اپنے دونوں بیٹوں (نواسوں) کانام حسن اورحُسین رکھا۔‘‘
1 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،مناقب ابی محمد الحسن بن علی ۔۔۔الخ،4/517،حدیث:4121 2 مرآۃ المناجیح ، 8/475 3 تاریخ مدینۃ دمشق’’ا لمعروف بابن عساکر ‘‘ ، حرف العین فی آباء من اسمہ الحسین ،١٥٦٦-الحسین بن علی ۔۔۔الخ،14/131 4 سنن ابن ماجہ، ابواب الآیات،باب : خروج المھدی ،4/35،حدیث:4119 5 المعجم الکبیر للطبرانی، ٢٣٦-الحسین بن علی۔۔۔الخ، 3/101، حدیث:2777 6 اسد الغابۃ،باب الحاء والسین ، ١١٦٥- الحسن بن علی ، 2/13 ۔۔۔ الشرف المؤبد ،ما ورد فی فضل الحسنین معارضی اللہ عنھما ،ص75
اَذانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات
عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ :’’ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِيْ أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا حِيْنَ وُلِدَا ، وَأَمَرَ بِهِ ‘‘۔(1) حضرت سیِّدُنا ابو رافع رَضِیَ اللہُ عَنْھ سے روایت ہے کہ نبی ذیشان،سرورِ کون ومکان ﷺ نےحضرت حسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُما کی وِلادت کے وقت ان کے کانوں میں اَذان دی اوراس کا حکم دیا۔
حَسنین ِکریمین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کا عقیقہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ :’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ كَبْشًا كَبْشًا ‘‘۔(2) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے : سرورِ ذیشان، راحتِ قلب و جان ﷺ نے (اپنے دونوں نواسوں ) حسن اور حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کی طرف سے ایک ایک دُنبہ ( عقیقہ میں) ذبح فرمایا۔
محبوب ترین اَولادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُوْلُ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ :’’ اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ‘‘ . وَكَانَ يَقُوْلُ لِفَاطِمَةَ ’’ اُدْعِيْ لِيَ ابْنَيَّ ‘‘ ، فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْه ِ۔(3) حضرت سیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : سرورِ دو عالَم ، حُسنَ مجسَّم ﷺ سے پوچھا گیا: اہلِ بیت میں سے آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’حسن اور حسین‘‘ اور حضورِانور ﷺ حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا سے فرماتے تھے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ۔پھر آپ ﷺ انہیں(حسن و حسین کو) سُونگھتے تھے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔
شرحِ حدیث
’’ محبت کی بہت(سی) قسمیں ہیں: اَولاد سے محبت اور قسم کی ہے،اَزواج سے اور قسم کی، دوستوں سے اور قسم کی۔اَولاد میں حضراتِ حسنین بہت پیارے ہیں، اَزواج میں حضرت عائشہ صدیقہ محبوبہ محبوبِ ربُّ العالمین ہیں،دوست و اَحباب میں حضرت ابوبکر صدیق بہت پیارےہیں( رَضِیَ اللہُ عَنْھَمْ اَجْمَعِیْن ) ۔ ‘‘ (4)
پنج تن پاک اور چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَّلَ عَلَى الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ كِسَاءً، ثُمَّ قَالَ : ’’ اَللّٰهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ وَ حَامَّتِي، أَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا ،‘‘ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ، قَالَ : ’’ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ ‘‘(5) حضرت سیِّدَتُنا اُمّ المؤمنین اُمِّ سَلَمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا سے روایت ہے : سیِّدالسَّادات، باعثِ تخلیقِ کائناتﷺ نےحضراتِ حَسن، حُسین، علی اور فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن کو اپنی چادرِ مقدّس میں لے کر (ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں) یہ دُعا کی:’’ اے اللہ!یہ میرے اہلِ بیت اور مخصوصین ہیں،ان سے رِجْس و ناپاکی دُور فرما اور انہیں پاک کر دے اور خوب پاک۔‘‘ (یہ دُعا سُن کر) حضرت اُمّ المؤمنین اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا نے عرض کی:یارسول اللہ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔تو آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا:’’ تم بہتری پر ہو۔‘‘
محبتِ پنج تن پاک کا انعام
عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ،قَالَ: ’’ مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِيْ دَرَجَتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘۔(6) حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْھ ذکر فرماتے ہیں : رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال ﷺ نےحَسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا کا ہا تھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے مجھ سے، ان دونوں سے،ان کے والد(حضرت علی) اور ان کی والدہ(حضرت فاطمہ) سے محبت کی تو وہ بروزِ قیامت میرے ساتھ میرے درجے میں( جوار میں خادمانہ شان کے ساتھ) ہوگا۔‘‘
1 المعجم الکبیر للطبرانی،علی بن الحسین عن ابی رافع ،1/313، حدیث:926 2 سنن ابو داود، کتاب الاضاحی،باب فی العقیقۃ ،5/41،حدیث:2830 3 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب۔۔۔،4/519،حدیث:4126 4 مرآۃ المناجیح ، 8/477
-478 5 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،،١٢٩-ما جاء فی فضل فاطمۃ رضی اللہ عنہا، 4/560، حدیث:4228 6 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب۔۔۔،4/501،حدیث:4084
محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نرالا انداز
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلِيٍّ،وَفَاطِمَةَ، وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ، : ’’ أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ، حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ ‘‘۔(1) حضرت سیِّدُنا زید بن اَرقم رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے: جانِ کائنات، سیِّدُالسَّادات ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضراتِ حَسن و حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن سے اِرشاد فرمایا: جو تم سے صُلح کرے میں اُس سے صُلح کرنے والا ہوں اور جو تم سے لڑے میں اُس سے لڑنے والا ہوں ۔ 4بہترین ہستیاں (16) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’ خَيْرُ رِجَالِكُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ، وَخَيْرُ شَبَابِكُمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَخَيْرُ نِسَائِكُمْ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ ‘‘۔(2) حضرت سیِّدُنا عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں: نبیِ رحمت ،شافعِ اُمّت ﷺ نے اِرشاد فرمایا:’’تمہارے مَردوں میں بہترین علی بن ابو طالب ہیں، تمہارے نوجوانوں میں بہترین حسن اور حُسین ہیں اور تمہاری خواتین میں بہترین فاطمہ بنتِ محمد ہیں رَضِیَ اللہُ عَنْھَمْ اَجْمَعِیْن ۔‘‘
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کےدو نورِ نظر
عَنِ الْبَرَاءِ، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: ’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا ‘‘۔(3) حضرت سیِّدنا بَراء بن عازب رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے : رسولِ مقبول،بی بی آمنہ کے پھول ﷺ نے(اپنے دونوں نواسوں) حَسن اور حُسین کی طرف(محبت بھری نظر سے ) دیکھا اور (ربّ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں ) عرض کی: ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! میں اِن دونوں سے محبت کرتاہوں، تُو بھی اِن سے محبت فرما۔‘‘
محبتِ الٰہی کے دو شاہکار
عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ :’’ مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحْبَبْتُهُ، وَمَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ جَنَّاتِ النَّعِيمِ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَوْ بَغَى عَلَيْهِمَا أَبْغَضْتُهُ، وَمَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ عَذَابَ جَهَنَّمَ وَلَهُ عَذَابٌ مُقِيمٌ ‘‘۔(4) حضرت سیِّدُنا سلمان رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں : رسولِ ہاشمی، مکی مدنی ﷺ نے حضرت حَسن اورجناب حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا سے متعلّق اِرشاد فرمایا:’’جس نے ان دونوں سے محبت کی ، وہ میرا محبوب ہوگیا اور جو میرا محبوب ہوگیا ،اللہ تعالیٰ اُس سے محبت فرماتاہے اور جس شخص سے اللہ عَزَّوَجَلَّ محبت فرمائے ، اُسے جَنَّاتِ نعیم(نعمتوں والے باغات) میں داخل فرمائے گا۔اور جس نے ان دونوں(حسن و حسین) سے بُغض رکھا یا ان سے بغاوت کی، وہ میری بارگاہ میں بھی مبغوض ہوگیااور جو میری نظر میں مبغوض ہوگیا ،وہ اللہ جبّار عَزَّوَجَلَّ کے جلال و غضب کا مستحق ہوگیا اور جو خُدائے قہّار عَزَّوَجَلَّ کے غضب کا شکار ہوگیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے جہنم کے عذاب میں داخل فرمائے گا اور اس کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔‘‘
دوحَسین بوسہ گاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ هٰذَا عَلٰی عَاتِقِهِ وَهٰذَا عَلٰى عَاتِقِهِ، يَلْثِمُ هٰذَا مَرَّةً وَهٰذَا مَرَّةً ، حَتَّى انْتَهٰى إِلَيْنَا، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : إِنَّكَ لَتُحِبُّهُمَا يَارَسُوْلَ اللهِ! قَالَ : ’’ مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِيْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ ‘‘۔ (5) حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : نبیِ مکرَّم ، شافعِ اُمَم ﷺ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے ایک مقدّس شانے (کندھے) پر حَسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ اور دوسرے شانے پر حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ سوار تھے۔ آپ ﷺکبھی ایک شہزادے کو چومتے تو کبھی دوسرے کو بوسہ دیتے، حتی کہ ہماری مجلس میں تشریف لے آئے۔ ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! بیشک آپ تو ان دونوں سے بڑی محبت فرماتے ہیں! تو جانِ ایمان ،رحمتِ عالمیان نے اِرشاد فرمایا: ’’جس نے ان دونوں( حسنین کریمین) سے محبت کی،تحقیق اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو بیشک اُس نے مجھ سے بُغض رکھا۔‘‘
سینۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے لگنے والے دو پھول
عَنْ يَعْلَى الْعَامِرِيِّ، أَنَّهُ : جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَسْعَيَانِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَضَمَّهُمَا إِلَيْهِ وَقَالَ :’’ إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ ۔‘‘ (6) حضرت سیِّدُنا یعلیٰ عامری رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے: جناب سیِّدنا حسن اور حضرت سیِّدنا حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سرکارِ عالی وقار ، جناب احمد مختار ﷺ کی طرف دوڑتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے ان دونوں شہزادوں کو اپنے نورانی سینے سے لگا لیا اور ارشاد فرمایا: بیشک اَولاد بُخل اور بُزدلی ( کے اسباب میں سے) ہے۔
شرحِ حدیث
’’ حدیثِ پاک میں اَولاد کو بخل اور بزدلی کا سبب فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں ہے،بلکہ اِنتہائی محبت کے اظہار کے لیے ہے یعنی اَولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل اور بزدل بن جانے پر مجبور کردیتی ہے۔یہ بات فطری ہے اگرچہ اللہ والوں میں اس کا ظہور کم ہوتا ہے۔ مؤمن کو اللہ اور اس کا رسول اولاد مقابلے میں (زیادہ )پیارے ہوتے ہیں ۔‘‘(7)
محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کےدو شاہکار
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’ مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِيْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ ‘‘۔(8) حضرت سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: نبیِ اکرم ، حُسنِ مجسَّم ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ’’ جس نے حَسن اور حُسین سے محبت کی تو تحقیق اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے بُغض رکھا تو بیشک اُس نے مجھ سے بُغض رکھا۔‘‘
نواسوں پر خصوصی شفقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم يُعَوِّذُالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَيَقُوْلُ :’’ إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ : أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ ،مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ ۔‘‘(9) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : نبیِ مکرَّم ، شفیعِ اُمَم ﷺ حضرت حَسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا پر یوں تعویذ( دَم )کرتے تھےاور فرماتے تھےکہ بیشک تمہارے والد(یعنی جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام اپنے صاحبزادوں)حضرت اسمعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی حفاظت کے لیے یہ دُعا پڑھتے تھے: میں تمہیں اللہ کے پورے کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ، ہرشیطان و زہریلے جانور سے اور ہر بیمار کرنے والی نظر سے۔
1 سنن ابن ماجہ ،کتاب اتباع سنۃﷺ،باب: فضائل الحسن والحسین ۔۔۔ا لخ، 1/234، حدیث: 144 2 تاریخ بغداد مدینۃ السلام ، ذکر من اسمہ احمد ۔۔۔الخ،٢٥٤٨-احمد بن محمد بن اسحاق۔۔۔الخ،6/59 ۔۔۔کنزالعمال ، کتاب الفضائل، فضل اھل البیت، 12/48 ،حدیث:34186 3 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب۔۔۔،4/523،حدیث:4136 4 المعجم الکبیر للطبرانی ، بقیۃ اخبار الحسن بن علی رضی اللہ عنھا ، 3/43 حدیث:2655 5 البحر الزخار المعروف بمسند البزار ، عبدالرحمن بن مسعود ،16/240،حدیث:9410 6 سنن ابن ماجہ ، ابواب الآداب، باب بر الوالد ین والاحسان الی البنات۔۔۔ الخ،3 /436 حدیث: 3691 7 مرآۃ المناجیح ، 6/367،ملخصّا 8 سنن ابن ماجہ ، کتاب اتباع سنۃ ﷺ ،باب : فضائل الحسن والحسین۔۔۔ الخ،1/233،حدیث:142 9 صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء، باب۔۔۔حدثنا موسی بن اسماعیل۔۔۔الخ ، ص832، حدیث:3371
بہترین سواری اور سوار
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ ،فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ المَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :’’ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ ‘‘۔ (1) حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا فرماتے ہیں : محبوبِ کبریا ، امام الانبیا ﷺ حضرت سیِّدنا حَسن بن علی رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا کو اپنے مقدَّس کندھے پر اُٹھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا: اے صاحبزادے! تم بہت اچھی سواری پر سوار ہو، تو نبیِ اعظم ﷺ نے فرمایا:’’ وہ سوار بھی تو اُچھا ہے۔‘‘
دو حَسین اور بہترین سوار
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَمْشِيْ عَلَى أَرْبَعَةٍ وَعَلَى ظَهْرِهِ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا وَهُوَ يَقُوْلُ :’’ نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُكُمَا، وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ أَنْتُمَا ۔‘‘ (2) حضرت سیِّدُنا جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں اِس حال میں سیِّدِ اَبرار،جنابِ احمد مختار ﷺ کی بارگاہِ ناز میں حاضر ہوا کہ آپ ﷺ چار پر(یعنی دونوں مبارَک پاؤں اور دونوں مقدَّس ہاتھوں کے بَل) چل رہے تھے اور آپ ﷺ کی پُشتِ انور پر حضرات حَسن و حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سوار تھےاور سرکارِ اعظم ﷺ (انہیں یہ محبت بھرا جملہ ) اِرشاد فرمارہے تھے کہ:’’تم دونوں کا اُونٹ کتنا خوب ہے اور تم دونوں سوار بھی کتنے خوب ہو۔‘‘
دو عالیشان سواریاں
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ،قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، أَوْ أَحَدُهُمَا، فَرَكِبَ عَلَى ظَهْرِهِ، فَكَانَ إِذَا سَجَدَ رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ بِيَدِهِ، فَأَمْسَكَهُ، أَوْ أَمْسَكَهُمَا، ثُمَّ قَالَ :’’ نِعْمَ الْمَطِيَّةُ مَطِيَّتُكُمَا ‘‘۔(3) حضرت سیِّدُنا بَراء بن عازب رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں : امامُ المرسلین،خاتم النبیین ﷺ نماز پڑھاتے تو حضرات حَسن و حَسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا یا ان میں سے کوئی ایک آکر سیِّدالعالَمین ﷺ کی پُشتِ انور پر سوار ہوجاتے۔جب آپ ﷺ سجدہ فرماتے، سجدے سے سر اُٹھاتے ہوئے ان دونوں (نواسوں) کو یا ان میں سے ایک کو تھام لیتے ، پھر فرماتے:’’ تم دونوں کی سواری کتنی اچھی سواری ہے۔‘‘
پُشتِ انور کے دو نورانی سوار
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَثِبَانِ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيُبَاعِدُهُمَا النَّاسُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’ دَعُوْهُمَا، بِأَبِيْ هُمَا وَأُمِّيْ، مَنْ أَحَبَّنِيْ، فَلْيُحِبَّ هَذَيْنِ ‘‘۔(4) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں : نبیِ رحمت، شفیعِ اُمّت ﷺ نماز ادا فرما رہےتھے ، حضرت حَسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا آپ ﷺکی پُشتِ اقدس پر بیٹھ گئے ۔ لوگ ان دونوں شہزادوں کو دُور (یعنی منع )کرنے لگےتو سلطانِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ ان دونوں کو چھوڑ دو، ان پر میرے ماں باپ قربان! ، جس نے مجھ سے محبت رکھی اُس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں( حَسن اور حُسین) سے بھی محبت رکھے۔‘‘
دو شاندار سوار
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَهُوَ حَامِلُهُمَا عَلَى مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ! نَعِمَتِ الْمَطِيَّةُ قَالَ :’’ وَنِعْمَ الرَّاكِبَانِ ۔‘‘ (5) حضرت سیِّدُنا ابو جعفر رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : ایک بار سرورِ دو عالَم، نورِ مجسَّم ﷺ حضراتِ حَسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو اُٹھائے ہوئے اَنصار کی ایک مجلس سے گزرے تو اَنصار صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ ! کیا ہی خوب سواری ہے! جانِ عاَلم ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ’’ دونوں سوار بھی تو کتنے خوب ہیں۔‘‘
پُشتِ انور کی برکتیں لینے والے شہزادے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيْ فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ فَإِذَا مَنَعُوْهُمَا أَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ دَعُوْهُمَا فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ وَضَعَهُمَا فِيْ حَجْرِهِ فَقَالَ: ’’ مَنْ أَحَبَّنِيْ فَلْيُحِبَّ هَذَيْنِ ۔‘‘(6) حضرت سیِّدُنا عبداللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : امام المرسلین،خاتم النبیین ﷺ نماز ادا فرما رہےتھے۔جب آپ ﷺ نے سجدہ فرمایا تو جنابِ حَسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا آپ ﷺ کی پُشتِ انور پر سوار ہوگئے۔ جب لوگوں نے ان شہزادوں کو روکا (اس طرح کرنے سے منع کیا) تو نبیِ کریم ﷺ نے لوگوں کو اِشارہ فرما دیا کہ ان دونوں (حسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) کو چھوڑ دو۔ پھر جب رسولِ اکرم ﷺ نے نماز مکمل فرمائی تو ان دونوں کو اپنی آغوش( گود مبارَک) میں لے کر ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے تو اُسے چاہئے کہ ان دونوں(حسن و حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) سے بھی محبت رکھے۔‘‘
1 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب۔۔۔،4/523،حدیث:4137 2 المعجم الکبیر للطبرانی،بقیۃ اخبار الحسن بن علی رضی اللہ عنھما ، 3/46حدیث:2661 ۔۔۔’’ مجمع الزوائد ‘‘،کتاب المناقب، ٢١- باب:فیما اشترک فیہ الحسن والحسین ،الخ، 18/515، حدیث:15075 ۔۔۔’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘،٤٧ – الحسن بن علی بن ابی طالب ، 3/256 3 المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین،من اسمہ علی،4/205،حدیث:3987 4 الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ،باب اخبارہﷺ عن مناقب الصحابۃ۔۔۔الخ، ذکرالبیان بان محبۃ الحسن والحسین۔۔۔الخ ،7/563،حدیث:7012 ۔۔۔۔ المعجم الکبیر للطبرانی ،بقیۃ اخبار الحسن بن علی رضی اللہ عنھا ، 3/40 حدیث:2644 5. المصنّف لابن ابی شیبۃ، کتاب الفضائل ،٢٣- ما جاء فی الحسن والحسین رضی اللہ عنھما ،17/171-173،حدیث:32859 6 صحیح ابن خزیمۃ ،کتاب الصلاۃ،جماع ابواب الافعال المباحۃ فی الصلاۃ ،٣٣٦-باب ذکر الدلیل علی ان الاشارۃ۔۔۔الخ ،2/106،حدیث:887 ۔۔۔ المصنّف لابن ابی شیبۃ، کتاب الفضائل ،٢٣- ما جاء فی الحسن والحسین رضی اللہ عنھما ،17/157-158، حدیث :32838
محبتِ حَسنین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا اور طویل سجدے
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فَيَجِيءُ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ فَيَرْكَبُ ظَهْرَهُ، فَيُطِيْلُ السُّجُودَ فَيُقَالُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَطَلْتَ السُّجُودَ فَيَقُوْلُ : ’’ ارْتَحَلَنِي ابْنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعْجِلَهُ ۔‘‘ (1) حضرت سیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :قائدالمرسلین، خاتم النبیین ﷺ سجدے میں ہوتے تو حضرت حَسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا آکر آپ ﷺ کی پُشتِ انور پر سوار ہوجاتے۔اس وجہ سے حضورِ اکرم ﷺ سجدوں کو طویل فرما دیتے۔ عرض کی گئی: اے اللہ عَزَّوَجَل َّکے پیارے نبی ﷺ! کیا آپ ﷺ نے سجدوں کو لمبا فرمادیا ہے؟ تو سرکارِ اعظم ﷺ نے اِرشاد فرما دیا: ” مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا؛اس لئے (سجدے سے سر اُٹھانے میں) جلدی کرنے کو ناپسند جانا۔”
نواسوں کیلئے خصوصی دعائےمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ حَبِيْبِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: لَمَّا أُصِيْبَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَامَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، إِلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : أَفَعَلْتُمُوْهَا أَشْهَدُ أَنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: ’’ اَللّٰهُمَّ أَسْتَوْدِعُكَهُما وَصَالِحَ الْمُؤْمِنِينَ ۔‘‘(2) حضرت سیِّدُنا حبیب بن یسار رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں:جب حضرت سیِّدُ الشُہداء امام حُسین بن علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو شہید کیا گیا تو صحابیِ رسول حضرت سیِّدنا زیدبن اَرقم رَضِیَ اللہُ عَنْہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: (اےظالمو! ) تم نے یہ(ظلم ) کیا ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبیِ مکرَّم ﷺ کو (بارگاہِ الٰہی میں)یہ عرض کرتے ہوئے سُنا ہے کہ :’’اے اللہ! میں ان دونوں(حَسن اور حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) کو اور نیک مسلمانوں کو تیر ی پناہ و حفاظتِ خاص میں دیتا ہوں‘‘
14 نجیب و رقیب
قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’ إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ رُفَقَاءَ أَوْ قَالَ : رُقَبَاءَ وَأُعْطِيْتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ، قُلْنَا: مَنْ هُمْ، قَالَ : ’’ أَنَا وَابْنَايَ، وَجَعْفَرُ، وَحَمْزَةُ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَبِلَالٌ، وَسَلْمَانُ، وَعَمَّارٌ، وَالْمِقْدَادُ، وَحُذَيْفَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ۔‘‘ (3) حضرت سیِّدُنا حیدرِ کرّار مولی علی رَضِیَ اللہُ عَنْھ فرماتے ہیں:شہنشاہِ کائنات، فخرِموجودات ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ’’ہر نبی کے سات(7) برگُزیدہ اور حافظین ہوئے اور مجھے چودہ(14) عطافرمائے گئے ۔‘‘ ہم (صحابہ) نے عرض کیا: وہ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “(مولا علی رَضِیَ اللہُ عَنْھ اپنے الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں کہ ) میں اور میرے دونوں بیٹے (حسن اور حُسین)،جعفر،حمزہ،ابوبکر، عمر، مُصعَب بن عُمیر، بلال، سلمان، عمار،مِقداد ، حُذیفہ اور عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن ۔‘‘
شرحِ حدیث
نُجباء جمع ہے نجیب کی بمعنی شریف یا منتخب اور برگزیدہ ،اور رُقَباء جمع ہے رقیب کی بمعنی حافظ و نگہبان،یعنی ہر نبی کے ان کی اُمّت میں سات اُمتی ان کے منتخب اور اُن نبی کے پاسبان ہوتے تھے مگر ہم کو الله تعالیٰ نے ایسے برگزیدہ چودہ اَفراد عطا فرمائے۔‘‘(4)
سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کاسردار بیٹا
أَبَا بَكْرَةَ سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ إِلَى جَنْبِهِ ، يَنْظُرُ إ ِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً ، وَيَقُوْلُ :’’ اِبْنِىْ هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔‘‘ (5) حضرت سیِّدُنا ابو بَکرہ (نُفَیع بن حارث) رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے رسولِ اکرم،نورِ مجسَّم ﷺ کو منبرِ اقدس پر فرماتے ہوئے سُنا،درانحالیکہ حضرت سیِّدنا حسن رَضِیَ اللہُ عَنْھ آپ ﷺ کے پہلو مبارَک کےپاس موجود تھے ۔ آپ ﷺ کبھی لوگوں کو ملاحظہ فرماتےتھے اور کبھی اپنے شہزادے حَسَن کی طرف توجہ فرماتے تھے۔ ارشاد فرماتے تھے کہ:’’میرا یہ بیٹا (حسن) سردار ہے،شاید کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صُلح کرا دے۔‘‘
شرحِ حدیث
شارِحِ بخاری امام احمد قسطلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ حدیثِ پاک کے کلمات’’ ابْنِى هَذَا سَيِّدٌ ‘‘ (میرا یہ بیٹا سردار ہے)کے تحت فرماتے ہیں:’’ کَفَاہُ ہٰذَا فَضْلاً وَ شَرفاً ۔‘‘ (6) یعنی سیِّدِ عالم ﷺ کا یہ فرمان ہی حضرت حَسَن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی فضیلت و شرف کے لئے کافی ہے۔
سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کے پیارےحَسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہ
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُهُ وَالْحَسَنَ وَيَقُوْلُ :’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّىْ أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا ۔‘‘ أَوْ كَمَا قَالَ (7) حضرت سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا سیِّدِ عالَم،حُسنِ مجسَّم ﷺ سے روایت کرتے ہیں : نبی اکرم ﷺ اِنہیں اور حضرت سیِّدنا حسن رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا کوپکڑتے تھے اور (ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کرتے تھے:’’ اے اللہ! میں اِن دونوں سے مَحبت کرتا ہوں ، تُو بھی اِن سے محبت فرما۔‘‘
شرحِ حدیث
’’ یہ حضرت اُسامہ کی انتہائی عظمت ہے کہ حضور ِانور صلی الله علیہ و سلم نے اپنی دعا میں انہیں حضرت حسن کے ساتھ ملایا۔‘‘(8)
راکبِ دوشِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ يَقُوْلُ :’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّىْ أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ ۔‘‘ (9) حضرت سیِّدُنا بَراء رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے رسولِ کریم ﷺ کودیکھا کہ حضرت سیِّدنا حسن بن علی رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا آپ کے مبارَک کندھے پر تھے ،آپ ﷺ (ربِّ کریم کی بارگاہِ بےنیاز میں )عرض کررہے تھےکہ : ’’اے اللہ! میں اِس سے محبت کرتا ہوں ،تُو بھی اِ س سے محبت فرما۔‘‘
شرحِ حدیث
’’ یعنی جس درجہ کی محبت ان سے میں کرتا ہوں تو بھی اسی درجہ کی محبت کر یعنی بہت زیادہ،ورنہ حضرت حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہتو پہلے ہی سے الله کے محبوب تھے۔‘‘(10) حَسَنِ مُجتبیٰ سیِّدُ الاَسْخِیَا راکِبِ دوشِ عزّت پہ لاکھوں سلام
1 مسند ابی یعلی الموصلی ،بقیۃ مسند انس، ٥- ثابت البنانی عن انس ،3/343 ،حدیث:3441 مجمع الزوائد ، کتاب المناقب، ٢١-باب : فیما اشترک فیہ الحسن والحسین۔۔۔الخ، 18/514، حدیث :15073 2 المعجم الکبیر “للطبرانی،حبیب بن یسار عن زید بن ارقم ، 5/185 ،حدیث:5037 ’’ مجمع الزوائد ‘‘، کتاب المناقب، ٢٢-باب مناقب الحسين بن علی، 18/559،حدیث:15137 ’’ کنزالعمال ‘‘ ، کتاب الفضائل، فضل اھل البیت ، 12/55،حدیث:34276 3 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ، مناقب معاذ بن جبل۔۔۔ الخ،4/526،حدیث:4142 4 مرآۃ المناجیح ، 8/558 5 صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، ص921، حدیث:3746 6” ارشاد الساری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ،باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ، 8/231، تحت الحدیث:3746 7 صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما، ص921، حدیث:3747 8 مرآۃ المناجیح ، 8/464
9 صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ،ص921، حدیث:3749 10 مرآۃ المناجیح ، 8/459
محبتِ حَسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی جزاء
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ لِحَسَنٍ : ’’ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ ۔‘‘ (1) حضرت سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے : نبیِ رحمت،شفیعِ اُمّت ﷺ نے حضرت سیِّدنا حَسَن رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے متعلّق بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: ’’ اے اللہ ! بیشک میں اِس سے محبت کرتا ہوں، تُو بھی اِس سے محبت فرما اور اِس سے محبت کرنے والے سے بھی محبت فرما۔‘‘
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’ حُسَيْنٌ مِنِّيْ وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ ۔‘‘(2) حضرت سیِّدُنا یَعلی بن مُرّہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : سیِّدالسَّادات، جانِ کائنات ﷺ نے اِرشاد فرمایا: ’’حُسین مجھ سے ہے اور میں حُسین سے ہوں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس سے محبت فرمائے جو حُسین سے محبت کرے۔حُسین اَسباط میں سے ایک سبط ہیں۔‘‘
شرحِ حدیث
’’سبط وہ درخت جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت یعنی جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اَسباط کہلاتے تھے کہ ان سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل شریف بہت چلی،ربّ فرماتاہے:’’وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا‘‘(3) (ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے انہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ۔)ایسے ہی میرے حُسَین سے میری نسل چلے گی اور ان کی اَولاد سے مشرق و مغرب بھرے گی،دیکھ لو آج ساداتِ کرام (سیِّدحضرات)مشرق و مغرب میں ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حَسنی سیِّد تھوڑے ہیں ،حُسَینی سیِّد بہت زیادہ ہیں(یہ) اس فرمانِ عالی کا ظہور ہے ۔‘‘(4)
محبتِ حَسنین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا کی اِک جھلک
عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِيْ كَثِيْرٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ بُكَاءَ الْحَسَنِ أَوِ الْحُسَيْنِ فَقَامَ فَزِعاً فَقَالَ :’’ إِنَّ الْوَلَدَ لَفِتْنَةٌ ، لَقَدْ قُمْتُ إِلَيْهِ وَمَا أعقل ۔‘‘(5) حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن ابو کثیر رَضِیَ اللہُ عَنْھ سے روایت ہے: رسولِ کریم، جنابِ رؤف و رحیم ﷺ نے حضرت حَسن یا حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا کے رونے کی آواز سُنی تو آپ ﷺ پریشان ہوگئے اور اِرشاد فرمایا:’’بیشک اَولاد آزمائش ہے، میں غور کئے بغیر ہی ان کے لئے کھڑا ہوگیا ہوں۔‘‘
محبتِ حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اِک جھلک
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِيْ زِيَادٍ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، فَمَرَّ عَلَى بَيْتِ فَاطِمَةَ، فَسَمِعَ حُسَيْنًا يَبْكِيْ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ : ’’ أَلَمْ تَعْلَمِيْ أَنَّ بُكَاءَهُ يُؤْذِيْنِيْ ۔‘‘(6) حضرت سیِّدُنا یزید بن ابو زیاد رَضِیَ اللہُ عَنْھ نے روایت فرمایا : سرورِ کونَین، نانائے حَسنَین ﷺ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کے گھر سے باہر تشریف لائے،آپ ﷺ کا گزر خاتونِ جنّت حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا کے گھر کے پاس سے ہوا،تو آپ ﷺ نے سُنا کہ حضرت سیِّدنا حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْھ رو رہے ہیں، نبیِ کریم ﷺ نے (حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا سے ) فرمایا: ’’تمہیں معلوم نہیں کہ اِس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘
اِمدادِ رسولِ جمیل و جبرئیل صلى الله عَلَيْهِمَا وَسلم
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : اِصْطَرَعَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عِنْدَ رَسُوْل اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ :’’ هِيَ حَسَن، ‘‘ فَقَالَتْ لَهُ فَاطِمَة:يَارَسُوْلَ اللهِ !تُعِيْنُ الْحَسَنَ كَأَنَّهُ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنَ الْحُسَيْنِ ،قَالَ :’’ إِنَّ جِبْرَئِيْلَ يُعِيْنُ الْحُسَيْنَ، وَإِنِّيْ أُحِبُّ أَنْ أُعِيْنَ الْحَسَنَ ۔‘‘ مُرْسل (7) حضرت سیِّدُنا محمد بن علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں :حضور جانِ عالَم،رسولِ اعظم ﷺ کے سامنے حضرت سیِّدنا حَسن اور جناب سیِّدنا حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کُشتی کر رہے تھے،جانِ ایمان ﷺ فرماتے تھے : “حَسن جلدی کرو!’’ تو خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا نے اپنے بابا جان کی بارگاہ میں عرض کی: یاسول اللہ ﷺ! آپ حَسن کی مدد فرما رہے ہیں ،گویا کہ یہ آپ ﷺ کو حُسین سے زیادہ محبوب ہیں؟ شاہِ انس و جان ﷺ نے اِرشاد فرمایا:’’ بیشک سیِّدالملائکہ جبرئیل عَلَیْہِ الصَّلَاۃُوَالسَّلَام حُسین کی مدد کر رہے ہیں ،اس لئے مجھے یہ پسندہوا کہ میں حسن کی مدد کروں۔‘‘
انمول وارثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ إِلَى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ شَكْوَاهُ الَّذِيْ تُوُفِّيَ فِيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! هَذَانِ ابْنَاكَ فَوَرِّثْهُمَا شَيْئًا، فَقَالَ :’’ أَمَّا الْحَسَنُ فَلَهُ هَيْبَتِيْ وَسُؤْدُدِيْ، وَأَمَّا حُسَيْنٌ فَلَهُ جُرْأَتِيْ وَجُوْدِيْ ۔‘‘(8) شہزادیِ رسول ، خاتونِ جنّت حضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے روایت ہے : یہ سیِّدعالَم،حُسنِ مجسَّم ﷺ کے مرض الوصال میں حضرت حَسن اور حضرت حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کو لے کر حاضرِ بارگاہِ رسالت ہوئیں اور عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، انہیں اپنی وِراثت میں سے کچھ حصّہ عطا فرمائیے۔ تو سلطانِ کائنات ﷺ نے فرمایا:’’ حَسن کے لئے میری ہیبت اور سیادت (وجاہت و سرداری) ہے اور حُسین کے لئے میری جُرأت اور سخاوت ہے۔‘‘ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب _ _صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
ماخذ و مراجع
صحیح بخاری دار ابن کثیر صحیح مسلم دارالفکر سنن ترمذی دار التأصیل سنن ابو داود دار التأصیل سنن ابن ماجہ دار التأصیل الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان دار التأصیل صحیح ابن خزیمۃ دارالمیمان المصنّف لابن ابی شیبۃ شرکۃ دار القبلۃ/مؤسسۃ علوم القرآن مسند ابی یعلی الموصلی دار التأصیل البحر الزخار المعروف بمسند البزار مکتبۃ العلوم و الحکم المعجم الکبیر للطبرانی مکتبہ ابن تیمیہ المعجم الاوسط للطبرانی (دار الحرمین) مجمع الزوائد دارالمنھاج کنزالعمال دار الکتب العلمیۃ تاریخ مدینۃ دمشق المعروف بابن عساکر دار الفکر تاریخ بغداد مدینۃ السلام دار الغرب الاسلامي سیر اعلام النبلاء مؤسسۃ الرسالۃ اسد الغابۃ دار الکتب العلمیۃ الخصائص الکبری دارالکتب العلمیۃ الشرف المؤبد مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ مرآۃ المناجیح نعیمی کتب خانہ فتاوی رضویہ رضا فاؤنڈیشن لاہور فتاوی شارح بخاری مکتبہ برکات المدینہ سوانح کربلا مکتبۃ المدینہ امام حَسَن کی 30 حکایات مکتبۃ المدینہ امامِ حُسین کی کرامات مکتبۃ المدینہ
1صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ،ص: 1206 حدیث:2421 2 سنن ترمذی ، ابواب المناقب ،باب:4/520،حدیث:4129 3 پ:7، الاعراف:160 4 مرآۃ المناجیح ، 8/479-480 5 المصنّف لابن ابی شیبۃ، کتاب الفضائل ،٢٣- ما جاء فی الحسن والحسین رضی اللہ عنھما ، 17/167، حدیث:32850 6 المعجم الکبیر للطبرانی ،٢٣٦- الحسین بن علی۔۔۔الخ ، 3/124حدیث:2847 7 الخصائص الکبری، باب ما شرف بہ اولادہ وازواجہ۔۔۔الخ ، 2/465 8 المعجم الکبیرللطبرانی، زینب بنت ابی رافع عن فاطمۃ ،22/423،حدیث:1041
اربعین حسنین | Arbaeen e Hasnain PDF Free Download
The Birth of Iman Husayn ibn Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ was born on the 4th of Sha’ban in the year 4 AH (626 AD) in Madinah. Being the second son of Sayyiduna Ali ibn Abi Talib رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and Fatimah Bint Muhammad رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ he was part of the Ahl al Bayt. Also, as the grandson of the Prophet Muhammad ﷺ, he belonged to a lineage revered by all Muslims.
Moreover, it is narrated that Sayyiduna Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ was given birth after a pregnancy period of just six months. Other than Sayyiduna Yahya رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ, no child having birth after pregnancy period of only six months could survive. (Shawahid-un-Nubuwwah, pp. 228)
Early Life of Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Raised in the household of the Prophet Muhammad ﷺ, Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ received profound spiritual and moral education. He learned directly from the Prophet Muhammad ﷺ and his parents, embodying the values of courage, justice, and compassion from an early age.
There are multiple narrations describing the Prophet’s ﷺ overwhelming love for his grandsons. One is as follows:
“The beloved Prophet ﷺ placed Imam Ḥusayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ in his lap, smelt him, embraced him, wrapped him in his blessed cloak, declared him the leader of the youth of Paradise and referred to him as “my flower in this world.” (Musnad Aḥmad, vol.10, p.184, Hadith 26,602, al-Tirmidhī, vol.5, p.426-433, Hadith 3793-3812)
Spiritual Leadership of Husayn Ibn Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ was not only a leader in the political sense but also a spiritual guide. He emphasized the importance of upholding moral integrity and staying true to Islamic principles, even in the face of adversity. Imam Hussain’s رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ teachings focused on justice, dignity, and the importance of resisting oppression.
Once, an individual complained of his poverty before the Prophet’s ﷺ grandson Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ. The Imam said to him:
‘Sit down for a while. My allowance will be brought to me. As soon as it is brought here, we will wish you farewell.’ After a short while, five sacks containing one thousand dinars each that were sent from Sayyiduna Ameer Mu’awiyah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ had arrived. The individual who brought them said: ‘Sayyiduna Ameer Mu’awiyah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ has apologized that this is only a little amount of money. Please accept it.’
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ gave all the amount to the individual who complained of his poverty and apologized for making him wait.’ (Kashf Al-Mahjoob, p. 77)
The Greatness of Hussain Ibn Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُwas once returning from participating in a funeral when he felt tired and sat at a place to take some rest. Sayyiduna Abu Hurayrah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُstarted dusting off the blessed feet of Imam hussein رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ with his shawl, which Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ forbade him from doing.
Upon that, Sayyiduna Abu Hurayrah رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ said: ‘By Allah! If people come to know what I know about your grandeur and honour, then they would lift you upon their shoulders.’ (Ibn Asakir, vol. 14, p. 179, summarised | Tareekh-ul-Islam-lil-Zehbi, vol. 2, p. 627)
Imam Hussain’s رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ Stance Against Tyranny
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ refused to pledge allegiance to Yazid, the Umayyad ruler, who embodied the corrupt and unjust practices Imam Hussein رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ opposed. His refusal was a stand for truth and justice against tyranny and oppression!
The Journey of Ahl al Bayt to Karbala
The plains of Karbala witnessed a monumental conflict between truth and falsehood that has become etched in the records of history and the minds of people. The soul representing truth and justice on that occasion, Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ, is still remembered as a beacon of truth. At the same time, his adversary, Yazeed, has become a synonym for falsehood.
The Battle of Karbala
A short of account of Karbala history is that Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ received letters from the people of Kufa, promising support if he stood against Yazid. He set out towards Kufa with his family and companions, hoping to mobilize an opposition to Yazid’s rule. The journey to Karbala was not just a physical one but a profound spiritual act. It symbolized a conscious choice to confront oppression and uphold the values of Islam, even at the cost of one’s life.
On the 10th of Muharram in 61 AH (680 AD), Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and his small band of followers faced Yazid’s vast army on the plains of Karbala. Despite being heavily outnumbered and deprived of water, Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and his companions fought valiantly.
Martyrdom of Hazrat Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Imam Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and his companions were martyred in the battle of Karbala, but their sacrifice left an indelible mark on Islamic history. The brutal nature of their deaths and the subsequent treatment of their families shocked the Muslim world and ignited a movement for justice.
Sayyiduna Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ was 56 years, 5 months and 5 days old at the time of his martyrdom. Imam Husayn shrine is in Karbala.
The Stand of Imam Hussein رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ and His Followers
On the night of Aashura, Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ said to his beloved brother, Sayyiduna Abbas ‘Alamdaar رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ: ‘This war should be delayed until tomorrow by any means, so that we can spend this night in the worship of Allah Almighty.’ Allah Almighty is well aware that Salah, recitation of the Quran, making Du’a and seeking forgiveness in abundance is very dear to me. (Al Kamil fi Tareekh, vol. 3, p. 415)
The massacre at Karbala resulted from the worldly ambitions of Yazeed and the treachery of the Kufan people who had sent many letters and invitations to Sayyiduna Imam Husayn رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ. This incident saw the merciless massacre of many members of the Prophet’s ﷺ family and their supporters at the hands of Yazeed’s forces.
Imam Hussain’s رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ stand at Karbala was a testament to his unwavering faith and commitment to justice. His refusal to surrender, even in the face of certain death, exemplified the ultimate sacrifice for truth and righteousness.
Advice (Naseehah) By Imam e Hussain رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ
Below are some beautiful pieces of advice or quotes of Imam Hussain bin Ali رَضِىَ الـلّٰـهُ عَـنْهُ that you can read to have a deep insight into different aspects of life.
– Although the world is considered good and exquisite, but the reward of Allah is far greater and more exquisite.
– When two people quarrel, the one who reconciles with the other first will go to Paradise first.
– Sustenance (Rizq) has been divided by destiny, but it is better for man not to be greedy for monetary gain.
– When a person seeks help from someone to inflict pain, those who help him and those who are disgraced and humiliated are all equal.