یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَاسَیِّدََالبَشَرْ
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر اور رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ
رْوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق ادا
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے اِبتدائی حالات
نسب شریف:
سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔
کنیت:
ابو القاسم۔
والدہ کا نام:
آمنہ بنت وہب۔
Read More: Ala Hazrat Imam Ahmed Raza Khan Barelvi
ولادت:
بروز پیر 12 ربیع الاوّل عام الفیل۔
رسول اللہ کے والد ماجد کا اِنتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے کی، اور سیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 6 سال کی ہوئی،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہال لے گئیں۔ واپسی میں بمقامِ ابوا ان کا انتقال ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش ام ایمن کے سپرد ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 8 سال کی ہوئی، تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا، اور 25 سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا۔ اس سفر سے واپسی کے 2 ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ 35 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔ حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا، جس پر سبھی خوش ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے، اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے، بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
خلوت و عبادت
بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں، مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت پسند آئی، چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور امت کے لیے مینارِ ہدایت ہے۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی دور نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے، لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا، امت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ ہے، لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا خیال فرماتے ہیں۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلا کر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول نہیں فرماتے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔
اور شرم و حیا اتنی غالب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے کندھے پر پتھر اْٹھاکر لارہے ہیں، تو ترس کھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔
کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور ’’التاجر الصدوق الامین‘‘ (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔
معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔
صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے رسول اللہ الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے، اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے۔ چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی،
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اْسوۂ حسنہ پیش کرنا تھا۔
’’بلاشبہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے ہر اْس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔‘‘ [الاحزاب 21]
نبوت
جب سنِ مبارک 40 کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورۃ اقراء کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے۔ اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔
وحیٔ آسمانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا، جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔
’’بے شک یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔‘‘ [التکویر 19-21]
اس وحیٔ الٰہی کی روشنی میں رسول اللہ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو امت کے لیے ایک بہترین اْسوۂ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتا ہے۔
دعوت و تبلیغ
ابتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا۔ ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلم کھلا تبلیغ شروع فرمائی، اور حج کے موقع پر عرب کے دوسرے قبائل کو بھی اسلام کی دعوت دی۔
دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خیر کے ہر کام کی تاکید فرمائی اور خود ہر خیر کے کام میں عملی نمونہ بن کر سامنے آئے اور اُمت کو شر کے ہر کام سے روکا اور عملی زندگی میں ہر شر سے خود کو بچاکر اُمت کے سامنے اسوۂ حسنہ پیش کیا۔
سول اللہ کی دعوت و تبلیغ میں جو اُمور خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہیں، ان میں توحید کی دعوت، شرک کی تردید، ایمان کی دعوت، کفر و الحاد کی تردید، اعمالِ صالحہ کی دعوت، اعمالِ سیئہ کی تردید، اِتّباعِ حق کی دعوت، اِتّباعِ باطل کی تردید شامل ہے۔
دعوت و تبلیغ کا سلسلہ 23 سال تک جاری رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عظیم الشان انقلاب برپا فرمایا، جس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے۔
اسلام کی طرف دعوت دینے کا حکم
اسلام ایک آفاقی دین ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بھی تمام عالم کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا:
’’اے رسول! آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے، وہی مارتا ہے، تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے نبی اُمی پر جو کہ اللہ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ [الاعراف 158]
چنانچہ اس حکمِ خداوندی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا کو اسلام کی طرف دعوت دی اور دنیا کو اس بات سے آگاہ فرمایا کہ کامیابی و فلاح اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ میں ہے اور جو شخص اس طریقہ سے اعراض کرے گا، وہ دنیا میں بھی ناکام و نامراد ہوگا اور آخرت میں بھی ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ہوگی۔
رسول اللہ نے اہلِ عرب کو تو دعوت دی ہی، لیکن دوسری طرف قصرِ کسریٰ اور روم کے بادشاہوں کو بھی خطوط ارسال فرمائے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان خطوط میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن بادشاہوں کو اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اعلان کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کی دعوت دی۔ اس دعوت و تبلیغ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سب انسانوں کو اِس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق و مالک ہے، اسی کے پاس دنیا و آخرت کی کامیابی و ناکامی کے اختیارات ہیں۔
مکی زندگی
ابتداءً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے لیے مکہ مکرمہ کو ہی منتخب فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی 13 سالہ مکی زندگی اِسی دعوت و تبلیغ میں گزری۔ قریشِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی مخالفت کی اور اِیذاء رسانی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و استقامت کے ساتھ دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا کرکٹ ڈالا گیا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا گیا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی رسول اللہ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی، مگر ان تمام تکلیفوں اور ظلموں کے باوجود رسول اللہ نے اپنی دعوتی کوششوں کو جاری رکھا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
اس دوران رسول اللہ نے مکہ مکرمہ کے گرد و نواح میں دعوت دی اور کئی قبائل کو اسلام کی دعوت دی۔ بعض قبائل نے اسلام قبول کرلیا اور بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو مسترد کر دیا۔ مکہ میں مسلمانوں کی تعداد دن بدن بڑھتی رہی اور قریش کی مخالفت بھی شدت اختیار کرتی گئی۔
ہجرتِ مدینہ
مکی زندگی کے آخر میں، جب مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔ مدینہ کے لوگوں نے رسول اللہ اور مسلمانوں کو خوش آمدید کہا اور وہاں رسول اللہ کو وہ آزادی ملی جو مکہ میں میسر نہیں تھی۔
مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجدِ نبوی کی تعمیر کی اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ مدینہ کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا، جسے “میثاقِ مدینہ” کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت مدینہ کے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان امن و سلامتی کا عہد کیا گیا اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا۔
مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرتی، اقتصادی، اور عدالتی نظام کو اسلامی اصولوں کے تحت منظم کیا۔
غزوات اور فتوحات
مدنی زندگی کے دوران کئی جنگیں اور غزوات ہوئے، رسول اللہ جن میں بدر، احد، خندق، خیبر، اور حنین کے غزوات نمایاں ہیں۔ ان غزوات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ اور مسلمانوں کو عظیم کامیابیاں عطا فرمائیں۔
فتح مکہ اسلام کی عظیم ترین فتوحات میں سے ایک تھی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو بغیر خونریزی کے فتح کیا اور اہلِ مکہ کو معاف کر دیا۔
Read More: رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ
وفات
سن 10 ہجری میں رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی امت کے لیے ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا، جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ہدایت اور روشنی کا مینار ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔
سن 11 ہجری میں رسول اللہ ہوئے اور اسی بیماری میں رسول اللہ نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی۔
رسول اللہ کی رحلت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو جاری رکھا اور دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا۔
جامعہ سعیدیہ دارالقرآن، جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ کے لئے یہ تحریر سیرتِ طیبہ کے کچھ پہلوؤں کا اجمالی خاکہ پیش کرتی ہے تاکہ ہمیں رسول اللہ کی زندگی سے رہنمائی ملے اور ہم اپنی زندگیاں ان کی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔