Hazrat Khadija Tul Kubra | 10 رمضان المبارک یوم وصال حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا

March 11, 2025
hazrat khadija tul kubra

🌲10 رمضان المبارک یومِ وصال مَلِکہ دو جہاں ، زوجہ رسولؐ ، مادرِ بتولؑ ، اُم المٶمنین حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ سلام اللّه علیھا🌳 Hazrat Khadija Tul Kubra

🍁دس رمضان المبارک ام المؤمنین حضرت سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یومِ وصال یومِ عرس ہے🌾

🙏اْمّ المْومنین سیدہ خْدَیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا🙏

نام: خْدَیجہ🥀
والد: خویلد بن اسد🥀
والدہ: فاطمہ بنت زائدہ🥀
سن پیدائش: 555ء(عام الفیل سے پندرہ برس قبل )🥀
قبیلہ: قریش(شاخ بنو اسد)🥀
سن وفات: 619ء🥀
مقام تدفین: جنت المعلیٰ(مکہ مکرمہ)🥀
کل عمر: 64 سال(ہجرت سے تین برس قبل )🥀

سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون  ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں،آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔(اسد الغابہ،ج 7، ص81) آپ کی کنیت اُمُّ الْقَاسِم، اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے 15سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ عقدِ نکاحنبیِّ کرِیم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے کردارو عمل سے مُتاثِر ہو کر  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  نے پیغامِ نکاح بھیجا جسے حُضُورِ انور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قبول فرمایا ، یوں یہ بابرکت نکاح آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکے سفرِ شام سے واپسی کے2ماہ 25دن بعد منعقد ہوا۔ (المواہب اللدنیہ، ج1، ص101)اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر  مبارک 40 برس تھی(الطبقات الکبرٰی ،ج8، ص13) رب عزوجل کا سلام ایک بار جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رَسولَ اللہ! صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا برتن لارہی ہیں جس میں کھانا اورپانی ہے جب وہ آجائیں توانہیں ان کے رب کا اور میراسلام کہہ دیں اوریہ بھی خوشخبری سنا دیں کہ جنت میں ان کے لئے موتی کا ایک گھر بناہے جس میں نہ کوئی شور ہو گااور نہ کوئی تکلیف۔ ( بخاری،ج2، ص565، حدیث:3820) نماز سے محبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  نمازکی فرضیت سے پہلے بھی نماز ادا فرماتی تھیں۔( فتاویٰ رضویہ،ج 5، ص83) جذبۂ قُربانی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنی ساری دولت حُضُور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے قدموں پر قربان کردی اور اپنی تمام عمر حُضُور اقدس صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی خِدمَت کرتے ہوئے گزار دی۔ (سیرت مصطفے، ص95) جود و سخا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا   کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ایک بار قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا  تشریف لائیں تو آپ نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کیا۔ (الطبقات الكبرٰى،ج1، ص92ملخصاً) خصوصیات (1)عورتوں میں سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانےاسلام قبول کیا (الاستیعاب،ج4، ص380) (2)آپ کی حَیَات میں رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا۔( مسلم، ص1016، حدیث: 6281) (3)آپ  صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ  کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہی سے ہوئی۔ (المواہب اللدنیہ ،ج1، ص391) شانِ ام المؤمنین بزبان سیّد المرسلین مکی مدنی سرکارصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمنے فرمایاکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب لوگوں نے میراانکار کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہیں کے شکم سے اللہتعالٰینے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (الاصابہ،ج8، ص103 ملتقطا) وصال شریف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا تقریباً 25سال حُضور پُرنور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمکی شریکِ حیات رہیں۔ آپرضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّمآپ کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی نماز ِجنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی(یعنی شرعاً اس کا آغاز نہ ہوا تھا) ،بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی، آپ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔(مدارج النبوت،ج 2، ص465) جس سال آپ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا۔

Read More: Shan E Hazrat Syeda Fatima Zahra (رضي الله عنه)

🌳نام و نسب🌳

🌲عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی​🥀
🌲اس سراے سلامت پہ لاکھوں سلام​🥀

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ وَرَسُولِكَ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ وَسَلِّمْ تَسْلِيماً عَدَدَ خَلْقِكَ وَرِضَاءَ نَفْسِكَ وَزِنَةَ عَرْشِكَ وَمِدَادَ كَلِمَاتِكَ.

10 رمضان المبارک یومِ عرس
ام المومنین سیدہ خدیجةالکبریٰ رضی اللہ عنہا

اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
جِلَوگِیَّانِ بَیْتُ الشَّرف پر درود
پَروگیّانِ عِفَّت پہ لاکھوں سلام
سِیمَـا پہلی ماں کَہْفِ امن و اماں
حق گزارِ رَفاقت پہ لاکھوں سلام
عرش سے جس پہ تسلیم نازل ہوئی
اس سَرائے سلامت پہ لاکھوں سلام

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی بیوی اور ام المومنین تھیں۔ آپ ایک باعزت، امیر اور نیک خاتون تھیں۔ آپ نے اسلام کی ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کی بہت مدد کی اور آپ کی ہمیشہ وفادار رہیں۔

حضرت خدیجہ کی پیدائش اور خاندان:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 555 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا تعلق قریش کے ایک معزز خاندان سے تھا۔ آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زید تھا۔

حضرت خدیجہ کی شادی:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی شادی ابو ہالہ بن زبیر سے ہوئی، جن سے ان کے دو بچے ہوئے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد آپ نے رسول اللہ ﷺ سے شادی کی۔

حضرت خدیجہ کا اسلام:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام لانے والی پہلی خاتون تھیں۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اور آپ کی ہمیشہ حمایت کی۔

حضرت خدیجہ کی خدمات:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام کی ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کی بہت مدد کی۔ آپ نے اپنا مال اور دولت اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے استعمال کی۔ آپ نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کی اور ان کی کفالت کی۔

حضرت خدیجہ کی وفات:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 619 عیسوی میں 65 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی وفات پر بہت غم کا اظہار کیا اور آپ کو “ام المومنین” کا لقب دیا۔

حضرت خدیجہ کی فضیلت:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک عظیم خاتون تھیں۔ آپ نے اسلام کی ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کی بہت مدد کی اور آپ کی ہمیشہ وفادار رہیں۔ آپ جنت کی دس بشارت پانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔

اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم 💚

Shan-e-Hazrat Syeda Khadija Tul Kubra رضى الله تعالى عنها

🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹
ذرانهء عقیدت بحضور ام المومنین مخدومۂ کائنات سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا

ہے درسِ وفا پیہم عنوان خدیجہ کا
جاری ہے زمانوں میں فیضان خدیجہ کا

مخصوص ہیں واصف بھی مخدومۂ عالم کے
سب کو ہے میسر کب عرفان خدیجہ کا

توفیق خدا گر دے، مداحئ رحمت کی
تا عمر رہے واصف، انسان خدیجہ کا

اسلام کے سائے میں لوگو جو سلامت ہو
اسلام چڑھایا ہے پروان خدیجہ کا

واللہ دو عالم کے مخزن کی محافظ ہیں
سرکار خدیجہ کے، قرآن خدیجہ کا

کون انکے مماثل ہے؟ طبقات دوعالم میں
مرسل بھی خدیجہ کے، رحمٰن خدیجہ کا

ہے نسلِ محمد ﷺ کا ہر فرد خدیجہ سے
صدیوں سے جو جاری ہے فیضان خدیجہ کا

مینارۂ کربل کی بنیاد خدیجہ ہیں
احسان ذرا مسلم، پہچان خدیجہ کا

حق ہم سے عدیمؔ ان کی مدحت کا ادا کیا ہو
“”مانا ہے پیمبر نے احسان خدیجہ کا”
🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹🍃🌹

Hazrat Khadija Tul Kubra Bint Khuwaylid: The First Lady of Islam

Hazrat Khadija Tul Kubra Bint Khuwaylid
Hazrat Khadija Tul Kubra Bint Khuwaylid

Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها – Radi Allahu Anha), also known as Khadija al-Kubra (the Great Khadija), was the first wife of Prophet Muhammad (ﷺ) and the first woman to embrace Islam. A revered figure in Islamic history, she was a respected businesswoman, a pillar of strength for the Prophet, and a generous benefactor to the early Muslim community.

Early Life and Family:

Born around 555 CE in Mecca, Khadija belonged to a prominent Quraysh tribe. Her father, Khuwaylid ibn Asad, was a successful merchant, and her mother, Fatima bint Zaida, was known for her intelligence and wisdom.

Marriage to Prophet Muhammad (ﷺ):

Khadija was known for her sound judgment and business acumen. Impressed by her qualities, Prophet Muhammad (ﷺ) entered into a business partnership with her. Their mutual respect and admiration blossomed into love, and they were married around 595 CE.

Embracing Islam:

Khadija was the first person to believe in Prophet Muhammad’s (ﷺ) prophethood. She not only accepted his revelation but also offered unwavering support during the difficult years of persecution faced by the early Muslims.

Support for Islam:

Khadija (رضي الله عنها) played a pivotal role in the early days of Islam. She used her wealth to support the fledgling Muslim community, providing for the poor and oppressed. She also financed Prophet Muhammad’s (ﷺ) mission, enabling him to focus on spreading the message of Islam.

Legacy:

Hazrat Khadija (رضي الله عنها) passed away in 619 CE, leaving a profound legacy. She was a constant source of strength and solace for Prophet Muhammad (ﷺ) during a critical period in Islamic history. She is considered one of the most virtuous women in Islam and is included among the ten women promised paradise.

Conclusion:

Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) was a woman of exceptional virtue and مقام. She is a shining star in Islamic history and her life is an inspiration for all Muslims.

FAQs

سوال: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ ﷺ سے نکاح کب ہوا؟

جواب: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ ﷺ سے نکاح 595 عیسوی میں ہوا۔

سوال: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے کتنے بچے تھے؟

جواب: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چار بچے تھے۔ دو بیٹیاں، زینب اور رقیہ، اور دو بیٹے، قاسم اور عبداللہ۔

سوال: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کب ہوئی؟

جواب: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات 619 عیسوی میں ہوئی۔

سوال: رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟

جواب: رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات پر بہت غم کا اظہار کیا اور آپ کو “ام المومنین” کا لقب دیا۔

سوال: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ آپ اسلام کی پہلی بیوی اور ام المومنین تھیں۔ آپ نے اسلام کی ابتداء میں رسول اللہ ﷺ کی بہت مدد کی اور آپ کی ہمیشہ وفادار رہیں۔ آپ جنت کی دس بشارت پانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔

فضائل میں سے چند ایک:

  • ام المومنین: رسول اللہ ﷺ نے آپ کو “ام المومنین” کا لقب دیا، جو آپ کی عظمت اور فضیلت کی دلیل ہے۔
  • جنت کی بشارت: آپ کو جنت کی دس بشارت پانے والی خواتین میں سے ایک ہونے کا شرف حاصل ہے۔
  • پہلی مسلمان خاتون: آپ اسلام لانے والی پہلی خاتون تھیں، جس سے آپ کی ایمان کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔
  • رسول اللہ ﷺ کی ساتھی: آپ نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے مشکل ترین دور میں ان کی ہمراہی کی اور ان کی مدد کی۔
  • سخاوت اور فیاضی: آپ اپنی سخاوت اور فیاضی کے لیے مشہور تھیں۔ آپ نے اپنا مال اور دولت اسلام کی اشاعت اور غریبوں کی مدد کے لیے استعمال کیا۔

خلاصہ:

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک عظیم خاتون تھیں جن کی فضیلت اور مقام بہت بلند ہے۔ آپ اسلام کی تاریخ میں ایک روشن ستارے کی مانند ہیں اور ان کی سیرت ہر مسلمان کے لیے ایک نمونہ ہے۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مناقب کا بیان

1. فَصْلٌ فِي مَنَاقِبِ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ خَدِيْجَةَ بِنْتِ خُوَيْلَدٍ رضی الله عنها
(اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے مناقب کا بیان)

1. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلٰى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مَا غِرْتُ عَلٰى خَدِيْجَةَ، هَلَکَتْ قَبْلَ أَنْ يَّتَزَوَّجَنِي، لِمَا کُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْکُرُهَا، وَ أَمَرَهُ اللهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَ إِنْ کَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ. مُتَّفَقٌ عَلٰىهِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہ رضی الله عنہا پر، حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پاچکی تھیں، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا (کثرت سے) ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے جو اُنہیں کفایت کر جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبی، باب: تزويج النبي صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم: 3605، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم: 2435، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 58، الرقم: 24355، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 307، الرقم: 14574.

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: أَتَي جِبْرِيْلُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَذِهِ خَدِيْجَةُ قَد أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيْهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْکَ فَاقْرَأْ عَلٰىهَا السَّلْامَ مِنْ رَّبِّهَا وَمِنِّي، وَ بَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبَ فِيْهِ وَلَا نَصَبَ. مُتَّفَقٌ عَلٰىهِ.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے: یا رسول الله! یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: تزويج النبي ﷺ خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم: 3609، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم: 2432، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32287.

3. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَي رضي الله عنه: بَشَّرَ النَّبِيُّ ﷺ خَدِيْجَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ. بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ لَاصَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ. مُتَّفَقٌ عَلٰىهِ.

’’حضرت اسماعیل سے مروی ہے کہ حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو بشارت دی تھی؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں (جنت میں) ایسے محل کی بشارت دی تھی جو موتیوں سے بنا ہو گا اور اس میں نہ شورو غل ہوگا اور نہ کوئی اور تکلیف ہو گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي ﷺ، باب: تزويج النبي ﷺ خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم: 3608، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1887، الرقم: 2433، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32288.

4. عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: خَيْرُ نِسَاءِهَا مَرْيَمُ وَ خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيْجَةُ. مُتَّفَقٌ عَلٰىهِ.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: تزويج النبي ﷺ خديجة و فضلها، 3 / 1388، الرقم: 3604، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1886، الرقم: 2430، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32289.

5. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتِ: اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيْجَةَ عَلٰى رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيْجَةَ فَارْتَاعَ لِذَلِکَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ، هَالَةَ، قَالَتْ: فَغِرْتُ فَقُلْتُ: مَا تَذْکُرُ مِنْ عَجُوْزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ، حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ، هَلَکَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ خَيْرًا مِنْهَا.

مُتَّفَقٌ عَلٰىهِ.

’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا اجازت طلب کرنا سمجھ کر کچھ لرزہ براندام سے ہوگئے۔ پھر فرمایا: خدایا! یہ تو ہالہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے رشک ہوا۔ پس میں عرض گزار ہوئی کہ آپ قریش کی ایک سرخ رخساروں والی بڑھیا کو اتنا یاد فرماتے رہتے ہیں، جنہیں فوت ہوئے بھی ایک زمانہ بیت گیا ہے کیا الله تعالیٰ نے آپ کو ان کا نعم البدل عطا نہیں فرما دیا ہے؟‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الحديث رقم 5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي ﷺ، باب: تزويج النبي ﷺ خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم: 3610، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم: 2437، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 7 / 307، الرقم: 14573.

6. عَن عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلٰى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلٰى خَدِيْجَةَ، وَ مَا رَأَيْتُهَا، وَلَکِنْ کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُکْثِرُ ذِکْرَهَا وَ رُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيْجَةَ فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ: کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيْجَةُ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهَا کَانَتْ وَ کَانَتْ وَ کَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ پر اتنا رشک نہیں آتا جتنا حضرت خدیجہ رضی الله عنہا پر، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں ہے، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ان کا ذکر فرماتے رہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی بکری ذبح فرماتے تو اس کے اعضاء کو علیحدہ علیحدہ کر کے انہیں حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی ملنے والی عورتوں کے ہاں بھیجتے۔ کبھی میں اتنا عرض کر دیتی کہ دنیا میں کیا حضرت خدیجہ کے سوا اور کوئی عورت نہیں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ہاں وہ ایسی ہی یگانہ روزگار تھیں اور میری اولاد بھی ان سے ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي ﷺ، باب: تزويج النبي ﷺ خديجة و فضلها، 3 / 1389، الرقم: 3607.

7. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلٰى نِسَاءِ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ عَلٰى خَدِيْجَةَ، وَ إِنِّي لَمْ أُدْرِکْهَا، قَالَتْ: وَ کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا ذَبَحَ الشَّاةَ فَيَقُولُ: أَرْسِلُوا بِهَا إِلٰى أَصْدِقَاءِ خَدِيْجَةَ. قَالَتْ: فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا فَقُلْتُ: خَدِيْجَةَ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، سوائے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے (یعنی میں ان پر رشک کیا کرتی تھی) اور میں نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا زمانہ نہیں پایا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیج دو۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک دن غصہ میں آگئی اور میں نے کہا: خدیجہ، خدیجہ ہی ہو رہی ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خدیجہ کی محبت مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘ اس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 7: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم: 2435، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 467، الرقم: 7006.

8. عَنْ عَائِشَة قَالَتْ: لَمْ يَتَزَوَّجِ النَّبِيُّ ﷺ عَلٰى خَدِيْجَةَ حَتَّي مَاتَتْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا انتقال ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 8: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم: 2436، و الحاکم في المستدرک، 3 / 205، الرقم: 4855، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 429، الرقم: 1475.

9. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ عَلٰى امْرَأَةٍ مِنْ نِسَاءِهِ مَا غِرْتُ عَلٰى خَدِيْجَةَ لِکَثْرَةِ ذِکْرِهِ إِيَّاهَا، وَ مَا رَأَيْتُهَا قَطُّ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا پر رشک کیا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے حالانکہ میں نے ان کو کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 9: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1889، الرقم: 2435.

10. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلٰى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلٰى خَدِيْجَةَ وَ لَقَدْ هَلَکَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي بِثَلاَثِ سِنِيْنَ. لِمَا کُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْکُرُهَا، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ عزوجل أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ، وَ إِنْ کَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ ثُمَّ يُهْدِيْهَا إِلٰى خَلَائِلِهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

’’ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت پر اس قدر رشک نہیں کیا جس قدر کہ میں نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا پر رشک کیا اور حضرت خدیجہ رضی الله عنہا میری شادی سے تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں (اور میں یہ رشک اس وقت کیا کرتی تھی) کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے حکم فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کو جنت میں خولدار موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دے دو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی بکری ذبح کرتے تھے تو حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی سہیلیوں کو گوشت بھیجا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 10: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضائل خديجة أم المؤمنين، 4 / 1888، الرقم: 2435.

11. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: حَسْبُکَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِيْنَ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَ خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَ آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَ قَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے کے) لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرعون کی بیوی آسیہ۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

الحديث رقم 11: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: فضل خديجة، 5 / 702، الرقم: 3878، و أحمد في المسند، 3 / 135، الرقم: 12414، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 464، الرقم: 7003، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم: 4745.

12. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَکَّةَ فِي فِدَاءِ أَسْرَاهُمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيْعِ بِمَالٍ، وَ بَعَثَتْ فِيْهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا کَانَتْ لِخَدِيْجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلٰى أَبِي الْعَاصِ. قَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيْدَةً، وَ قَالَ: إِنْ رَأَيتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيْرَهَا وَ تَرُدُّوا عَلٰىهَا الَّذِي لَهَا، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَ کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَخَذَ عَلٰىهِ أَوْ وَعَدَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيْلَ زَيْنَبَ إِلٰىهِ وَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: کُوْنَا بِبَطْنِ يَأْجَجَ حَتَّي تَمُرَّ بِکُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّي تَأْتِيَا بِهَا.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَ أَحْمَدُ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا وہ ہار بھی تھا جو انہیں (حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کی طرف سے) جہیز میں ملا تھا جب ابو العاص سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرط غم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوگئی فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب) کے قیدی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا مال اسے واپس دے دیا جائے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ابو العاص) سے عہد و پیمان لیا کہ زینب کو آنے سے نہیں روکے گا چنانچہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم یاجج کے مقام پر رہنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ پہنچے۔ پس اسے ساتھ لے کر یہاں آ پہنچنا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 12: أخرجه أبوداود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في فداء الأسير بالمال، 3 / 62، الرقم: 2692، وأحمد في المسند، 6 / 276، الرقم: 26405، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 428، الرقم: 1050.

13. عَنْ أَنَسٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلٰى النَّبِيِّ ﷺ وَ عِنْدَهُ خَدِيْجَةُ قَالَ: إِنَّ اللهَ يُقْرِءُ خَدِيْجَةَ السَّلَامَ. فَقَالَتْ: إِنَّ اللهَ هُوَ السَّلَامُ، وَ عَلٰى جِبْرِيْلَ السَّلَامُ، وَ عَلٰىکَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ فِي الْکُبْرَي وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے درآنحالیکہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا بھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: بیشک الله تعالیٰ حضرت خدیجہ پر سلام بھیجتا ہے اس پر حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے فرمایا: بیشک سلام الله تعالیٰ ہی ہے اور جبرائیل علیہ السلام پر سلامتی ہو اور آپ پر بھی سلامتی ہو اور الله کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے السنن الکبريٰ میں اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

الحديث رقم 13: أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 101، الرقم: 10206، و الحاکم في المستدرک، 3 / 206، الرقم: 4856.

14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَطَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ خُطُوْطٍ، قَالَ: أَتَدْرُوْنَ مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: اللهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَ آسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَ مَريَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُنَّ أَجْمَعِيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار خطوط کھینچے اور دریافت فرمایا؛ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ الله اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کی بہترین عورتیں ہیں جو کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت فاطمہ بنت محمد، آسیہ بنت مزاحم جو کہ فرعون کی بیوی ہے اور حضرت مریم بنت عمران رضی الله عنھن ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، امام ابن حبان اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

الحديث رقم 14: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، الرقم: 2668، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 470، الرقم: 7010، و الحاکم في المستدرک، 2 / 539، الرقم: 3836.

15. عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: کَانَتْ خَدِيْجَةُ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنَ النَّسَاءِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’امام ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا عورتوں میں سے سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 15: أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 203، الرقم: 4844، والبيهقي في السنن الکبري، 6 / 367، الرقم: 12859، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 30، الرقم: 16.

16. عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: کَانَتْ خَدِيْجَةُ رضی الله عنها أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَ صَدَّقَ بِرَسُوْلِهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’امام ابن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہونے سے پہلے خدیجہ رضی الله عنہا سب سے پہلی خاتون تھیں جو الله پر ایمان لائیں اور اس کے رسول، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے برحق ہونے) کی تصدیق کی۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 16: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم: 4845، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 249، الرقم: 1099، و ابن عبدالبر في التمهيد، 8 / 51، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والزهري في الطبقات الکبري، 8 / 18، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 220.

17. عَنْ رَبِيْعَةَ السَّعْدِيِّ قَالً: أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ وَ هُوَ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلَدٍ سَابِقَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِيْنَ إِلٰى الإِيْمَانِ بِاللهِ وَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

’’حضرت ربیعہ سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ یمانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی الله عنہا تمام جہاں کی عورتوں سے پہلے الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 17: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 203، الرقم: 4846، والمناوي في فيض القدير، 3 / 431، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 116.

18. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا ذَکَرَ خَدِيْجَةَ أَثْنَي عَلٰىهَا فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ. قَالَتْ: فَغِرْتُ يَوْمًا فَقُلْتُ: مَا أَکْثَرَ مَا تَذْکُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ عزوجل بِهَا خَيْرًا مِنْهَا. قَالَ: مَا أَبْدَلَنِيَ اللهُ عزوجل خَيْرًا مِنْهَا: قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ، وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ کَذَّبَنِيَ النَّاسُ، وَ وَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِيَ النَّاسُ وَ رَزَقَنِيَ اللهُ عزوجل وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے: آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں حالانکہ الله تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے الکبير میں روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 18: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 117، الرقم: 24908، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم: 22، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 8، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 604، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 117، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224.

19. عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ذَکَرَ خَدِيْجَةَ لَمْ يَکُنْ يَسْأَمُ مِنْ ثَنَائٍ عَلٰىهَا وَالإْسْتِغْفَارِ لَهَا. فَذَکَرَهَا ذَاتَ يَوْمٍ وَاحْتَمَلَتْنِي الْغِيْرَةُ إِلٰى أَنْ قُلْتُ قَدْ عَوَّضَکَ اللهُ مِنْ کَبِيْرَةِ السِّنِّ. قَالَتْ: فَرَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ غَضِبَ غَضْبًا سَقَطَ فِي جِلْدِي، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: اللَّهُمَّ، إِنَّکَ إِنْ أَذْهَبْتَ عَنِّي غَضْبَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لَمْ أَذْکُرْهَا بِسُوْئٍ فَلَمَّا رَأَي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الَّذِي لَقِيْتُ، قَالَ: کَيْفَ قُلْتِ؟ وَاللهِ، لَقَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ کَفَرَ بِيَ النَّاسُ، وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ کَذَّبَنِيَ النَّاسُ وَ رُزِقَتْ مَنِّيَ الْوَلَدُ إِذْ حُرِمْتِيْهِ مِنِّي، فَغَدَا بِهَا عَلٰى وَ رَاحَ شَهْرًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

’’حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا ذکر فرماتے تھے تو ان کی تعریف اور ان کے لئے استغفار و دعائے مغفرت کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ پس ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا تذکرہ فرمایا تو مجھے غصہ آ گیا یہاں تک کہ میں نے یہ کہہ دیا کہ الله تبارک و تعالیٰ نے آپ کو اس بڑھیا کے عوض (حسین و جمیل) بیویاں عطا فرمائی ہیں۔ پس میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شدید جلال میں آ گئے، (یہ صورتحال دیکھ کر) میں نے اپنے دل میں کہا: اے الله! اگر آج تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ کو ٹھنڈا کر دے تو میں کبھی بھی حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کا برے لفظوں میں تذکرہ نہیں کروں گی۔ پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو؟ حالانکہ، خدا کی قسم! وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور میری اولاد بھی ان کے بطن سے پیدا ہوئی جبکہ تو اس سے محروم ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہ تک اسی حالت (یعنی قدرے ناراضگی کی حالت میں) صبح و شام آتے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 19: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 13، الرقم: 21، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 112، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 31، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 224.

20. عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أُتِيَ بِالشَّيئِ يَقُوْلُ: اذْهَبُوْا بِهِ إِلٰى فُلَانَةٍ، فَإِنَّهَا کَانَتْ صَدِيْقَةَ خَدِيْجَةَ، اذْهَبُوْا بِهِ إِلٰى بَيْتِ فُلَانَةٍ، فَإِنَّهَا کَانَتْ تُحِبُّ خَدِيْجَةَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ کی سہیلی ہے، اس کو فلاں خاتون کے گھر لے جاؤ کیونکہ یہ خدیجہ سے محبت رکھتی تھی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں بیان کیا ہے۔

الحديث رقم 20: أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 90، الرقم: 232، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 41، الرقم: 40.

Question: When did Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) marry Prophet Muhammad (ﷺ)?

Answer: Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) married Prophet Muhammad (ﷺ) in 595 CE.

Question: How many children did Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) have?

Answer: Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) had four children with Prophet Muhammad (ﷺ). Two daughters, Zainab and Ruqayyah, and two sons, Qasim and Abdullah.

Question: When did Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) die?

Answer: Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) died in 619 CE.

Question: How did Prophet Muhammad (ﷺ) react to the death of Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها)?

Answer: Prophet Muhammad (ﷺ) was deeply grieved by the death of Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) and bestowed upon her the title of “Umm ul-Momineen” (Mother of the Believers).

Question: What are the virtues of Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها)?

Answer:

Hazrat Khadija bint Khuwaylid (رضي الله عنها) was a woman of great virtue and مقام. She was the first wife of the Prophet Muhammad (ﷺ) and the Mother of the Believers. She played a vital role in the early days of Islam and was a constant source of strength and support for the Prophet (ﷺ).

Some of her virtues include:

  • Umm ul-Momineen: The Prophet (ﷺ) bestowed upon her the title of “Umm ul-Momineen” (Mother of the Believers), which is a testament to her greatness and virtue.
  • Promised Paradise: She was one of the ten women who were promised Paradise.
  • First Muslim Woman: She was the first woman to embrace Islam, which demonstrates the strength of her faith.
  • Companion of the Prophet (ﷺ): She stood by the Prophet (ﷺ) during the most difficult times of his life and supported him in every way possible.
  • Generosity and Charity: She was known for her generosity and charity. She used her wealth and resources to support the spread of Islam and help the poor and needy.

Leave a Comment

🌟 جامعہ سعیدیہ دارالقرآن کی مدد کریں! 🌟

آپ کے عطیات سے دینِ اسلام کی خدمت اور تعلیماتِ قرآن کے فروغ میں تعاون کریں۔

📌 :فوری ضرورت

بارش سے متاثرہ دیوار کی مرمت (10 لاکھ روپے)

بوائز کیمپس کی نئی عمارت کی تعمیر (20-30 لاکھ روپے)

آج ہی اپنا حصہ ڈالیں اور ثوابِ  دارین حاصل کریں
📱 جاز کیش: 03017511848
🏦 بینک اکاؤنٹ: 04120981000469015

عطیہ کریں

Learn Quran Online At Jamia Saeedia Darul Quran
×